Saturday, 7 July 2012

ایک ایک جذبے کو بے مہار کرنا تھا

ایک ایک جذبے کو، بے مہار کرنا تھا
وہ تو ایک دریا تھا، مجھ کو پار کرنا تھا
عشق کی کہانی میں، موت المیہ کب تھی
خواہشوں کو ہاتھوں سے زیبِ دار کرنا تھا
وہ بھی کہہ گیا یونہی لوٹ کر پھر آؤں گا
مجھ کو بھی اب ایسے انتظار کرنا تھا
آنکھ کو سنوارا تھا پھر گھٹا کے کاجل سے
حسن کی تمازت سے ان کو چار کرنا تھا
انتظار میں تیرے، کتنی بار دھڑکا دل
کچھ یقین کرنا تھا، کچھ شمار کرنا تھا
کس قدر خموشی سے سہہ گئی تھی رخشندؔہ
کچھ تو سوچ کر آخر، اس پہ وار کرنا تھا

رخشندہ نوید

No comments:

Post a Comment