تھی جس کی جستجو وہ حقیقت نہیں ملی
ان بستیوں میں ہم کو، رفاقت نہیں ملی
اب تک میں اس گُماں میں کہ ہم بھی ہیں دہر میں
اس وہم سے نجات کی، صورت نہیں ملی
رہنا تھا اس کے ساتھ بہت دیر تک، مگر
کہنا تھا جس کو اُس سے کسی وقت مجھے
اُس بات کے کلام کی مہلت نہیں ملی
کچھ دن بعد اُس سے جدا ہو گئے منیرؔ
اُس بے وفا سے اپنی طبعیت نہیں ملی
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment