Saturday, 14 July 2012

تھی جس کی جستجو وہ حقیقت نہیں ملی

تھی جس کی جستجو وہ حقیقت نہیں ملی 
ان بستیوں میں ہم کو، رفاقت نہیں ملی
اب تک میں اس گُماں میں کہ ہم بھی ہیں دہر میں
اس وہم سے نجات کی، صورت نہیں ملی
رہنا تھا اس کے ساتھ بہت دیر تک، مگر 
ان روز و شب میں مجھ کو یہ فُرصت نہیں ملی
کہنا تھا جس کو اُس سے کسی وقت مجھے
اُس بات کے کلام کی مہلت نہیں ملی
کچھ دن بعد اُس سے جدا ہو گئے منیرؔ 
اُس بے وفا سے اپنی طبعیت نہیں ملی

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment