اس کے لبوں پہ رات کہانی غضب کی تھی
جذبات بہہ رہے تھے، روانی غضب کی تھی
راجا بھی لاجواب تھا صحرائے عشق کا
لیکن دیارِ حسن کی رانی غضب کی تھی
دیکھی ہیں شہر بھر میں بڑی کافر جوانیاں
اس کا بدن تھا میر کا مصرع بنا ہوا
ہم میں بھی جستجوئے معانی غضب کی تھی
ہونٹوں پہ دَھر گئی تھی قیامت کی تشنگی
اس کی وہ الوداعی نشانی غضب کی تھی
ہم لوگ تو ازل سے ہیں وارفتۂ سکوت
پھر چپ جو تھی بھی اسکی زبانی غضب کی تھی
عطا تراب
No comments:
Post a Comment