Saturday, 14 July 2012

ہونٹوں کے دو پھول رکھے تھے اس نے جب پیشانی پر

ہونٹوں کے دو پھول رکھے تھے اس نے جب پیشانی پر
چاند ہنسا تھا دیکھ کے ہم کو پاس ندی کے پانی پر
جگمگ جگمگ کرتی آنکھیں مجھ کو اچھی لگتی ہیں
قصہ لمبا کر دیتا ہوں بچوں کی حیرانی پر
یہ بھی کوئی باتیں ہیں جن پر آنکھیں کھل جاتی ہیں
میں حیران ہوا کرتا ہوں دنیا کی حیرانی پر
ہوش وخرد ایسے کھوتے ہیں باپ بھلا ایسے ہوتے ہیں
بچہ بن کر چیخ رہے ہو بچوں کی نادانی پر
اے اس عہد کے بوڑھے بچو! آؤ ہمارے ساتھ چلو
لال گلابی ناؤ چلائیں ہرے سنہرے پانی پر
شام کے بعد ہی کھلتا ہے ہر بھید نشیلی خوشبو کا
دن کو توجہ کب دیتا ہے کوئی رات کی رانی پر

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment