اگر یہ رات نہ اپنے دِیے بجھایا کرے
تو کیسے کوئی حساب غمِ بقایا کرے
وہ ایک عکس گماں ہے تو دل سے دور رہے
وہ خواب ہے تو مِری آنکھ میں نہ آیا کرے
اسے کہو، ہمیں بے چارگی کی خو ہے مگر
ہمارے ظرف کو اتنا نہ آزمایا کرے
طویل ہجر کا حاصل ہے ایک لمحۂ وصل
تو کوئی اس کا بھی احسان کیا اٹھایا کرے
کبھی تو ہو کہ ہماری خموش گویائی
سماعتوں میں صدا بن کے پھیل جایا کرے
ادھر سے پھر نہیں لوٹا گل آفتاب مِرا
ہوا کو چاہیے پچھم سے روز آیا کرے
کوئی تو آ کے شب ہجر سے کہے خالدؔ
رہے رہے، مگر اتنا نہ سر اٹھایا کرے
تو کیسے کوئی حساب غمِ بقایا کرے
وہ ایک عکس گماں ہے تو دل سے دور رہے
وہ خواب ہے تو مِری آنکھ میں نہ آیا کرے
اسے کہو، ہمیں بے چارگی کی خو ہے مگر
ہمارے ظرف کو اتنا نہ آزمایا کرے
طویل ہجر کا حاصل ہے ایک لمحۂ وصل
تو کوئی اس کا بھی احسان کیا اٹھایا کرے
کبھی تو ہو کہ ہماری خموش گویائی
سماعتوں میں صدا بن کے پھیل جایا کرے
ادھر سے پھر نہیں لوٹا گل آفتاب مِرا
ہوا کو چاہیے پچھم سے روز آیا کرے
کوئی تو آ کے شب ہجر سے کہے خالدؔ
رہے رہے، مگر اتنا نہ سر اٹھایا کرے
خالد علیم
No comments:
Post a Comment