اے عشق! مجھے آزاد کرو
کتنی ہی
زنجیریں
دل میں
نوکِیلے تپتے آہن سے بھی
اور گُھٹن کی بوجھل دیواریں تو
جیسے پشت اور سینے پر تعمیر ہوئی ہوں
عجب عجب سے پچھتاوے
اور بِلاجواز پیشمانی سی
سانسوں اور آنکھوں میں اکثر
پسی ہوئی مِرچوں کی سُلگن دُور دُور تک بھر دیتی ہے
بے چینی کے حلقے رُوح کو
سختی سے جکڑے رکھتے ہیں
آنسو گلے کو
اندر سے پکڑے رکھتے ہیں
ہِجر کی جیلیں
شہر کی جیلوں سے بڑھ چڑھ کر
عُمر دبوچ لیا کرتی ہیں
جو کچھ کرنا ہو آخر میں
پہلے سوچ لیا کرتی ہیں
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment