Friday, 6 July 2012

نیند تو آئی مگر خواب کے تحفے نہ ملے

نیند تو آئی، مگر خواب کے تحفے نہ ملے

کُھل گئی آنکھ تو پھر نیند کے لمحے نہ ملے

آج تک جوڑ کے رکھا ہمیں جن جذبوں نے

اِن دنوں خیر سگالی کے وہ جذبے نہ ملے

کیونکہ غمخواری میں شامل تھی اداکاری بھی

اِس لیے مجھ کو تسلّی کے دو جملے نہ ملے

مضطرب میں بھی ہوں، محسن کی پریشانی سے

اضطراب اُس کا کہ احسان کے بدلے نہ ملے

تاج احباب کی اُلفت کا سجا ہے سر پر

یہ الگ بات کہ دربار سے تمغے نہ ملے

ان کے اشعار کی تفہیم ضروری ہے عزیزؔ

جن کے افکار کو الفاظ پہ قبضے نہ ملے ہے


عزیز بلگامی 

No comments:

Post a Comment