رغبت مجھے اس واسطے بازار سے کم ہے
موجود مِری جیب میں درکار سے کم ہے
برگد کے گھنے پیڑ تلے رک تو گئے ہیں
سایہ مگر اس کا تِری دیوار سے کم ہے
یہ سوچ کے زنجیر ہلائی نہیں میں نے
دکھ میرا ابھی تک تِرے معیار سے کم ہے
اظہار میں جذبے کی صداقت نہیں اتری
لفظوں میں نمی چشمِ عزادار سے کم ہے
فن میں تو بلند اس سے بہت ہے مِرا قامت
توقیر مگر صاحبِ دستار سے کم ہے
موجود مِری جیب میں درکار سے کم ہے
برگد کے گھنے پیڑ تلے رک تو گئے ہیں
سایہ مگر اس کا تِری دیوار سے کم ہے
یہ سوچ کے زنجیر ہلائی نہیں میں نے
دکھ میرا ابھی تک تِرے معیار سے کم ہے
اظہار میں جذبے کی صداقت نہیں اتری
لفظوں میں نمی چشمِ عزادار سے کم ہے
فن میں تو بلند اس سے بہت ہے مِرا قامت
توقیر مگر صاحبِ دستار سے کم ہے
ثناء اللہ ظہیر
No comments:
Post a Comment