توڑ کر عہدِ کرم ناآشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
میرے عذرِ جرم پر مطلق نہ کیجئے اِلتفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائیے
راہ میں مِلیے کبھی مجھ سے تو از راہِ سِتم
میری تحریرِ ندامت کا نہ دیجئے کچھ جواب
دیکھ لیجیے اور تغافل آشنا ہو جائیے
مجھ سے تنہائی میں جو ملئے تو دیجئے گالیاں
اور بزمِ غیر میں جانِ حیا ہو جائیے
ہاں یہی میری وفائے بے اثر کی ہے سزا
آپ کچھ اس سے بھی زیادہ پُرجفا ہو جائیے
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment