یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے
دلوں میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیے
چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دل میں
نظر میں رقصِ بہاراں کی صبح شام لیے
مہک مہک کے جگاتی رہی نسیمِ سحر
لبوں پہ یارِ مسیحا نفس کا نام لیے
کسی خیال کی خوشبو کسی بدن کی مہک
درِ قفس پہ کھڑی ہے صبا پیام لیے
بجا رہا تھا کہیں دور کوئی شہنائی
اٹھا ہوں آنکھوں میں اِک خوابِ ناتمام لیے
دلوں میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیے
چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دل میں
نظر میں رقصِ بہاراں کی صبح شام لیے
مہک مہک کے جگاتی رہی نسیمِ سحر
لبوں پہ یارِ مسیحا نفس کا نام لیے
کسی خیال کی خوشبو کسی بدن کی مہک
درِ قفس پہ کھڑی ہے صبا پیام لیے
بجا رہا تھا کہیں دور کوئی شہنائی
اٹھا ہوں آنکھوں میں اِک خوابِ ناتمام لیے
مخدوم محی الدین
No comments:
Post a Comment