Tuesday, 10 July 2012

خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردہ کرے کوئی

خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردہ کرے کوئی
ہاں لطف جب ہے پا کے بھی ڈھونڈا کرے کوئی
تم نے تو حکمِ ترکِ تمنّا سُنا دیا
کس دل سے آہ ترکِ تمنّا کرے کوئی
دُنیا لرز گئی دلِ حرماں نصیب کی
اس طرح سازِ عیش نہ چھیڑا کرے کوئی
مجھ کو یہ آرزو وہ اُٹھائیں نقاب خود
اُن کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی
رنگینئ نقاب میں گُم ہو گئی نظر
کیا بے حجابیوں کا تقاضہ کرے کوئی
یا تو کسی کو جرأتِ دیدار ہی نہ ہو
یا پھر میری نگاہ سے دیکھا کرے کوئی
ہوتی ہے اس میں حُسن کی توہین اے مجازؔ
اتنا نہ اہلِ عشق کو رُسوا کرے کوئی 

اسرار الحق مجاز
(مجاز لکھنوی)

No comments:

Post a Comment