Saturday, 7 July 2012

نمایاں منتہائے سعئ پیہم ہوتی جاتی ہے

 نمایاں منتہائے سعئ پیہم ہوتی جاتی ہے

طبیعت بے نیاز ہر دو عالم ہوتی جاتی ہے

اٹھی جاتی ہے دل سے ہیبت آلام روحانی

جراحت بہر قلب زار مرہم ہوتی جاتی ہے

جنوں کا چھا رہا ہے زندگی پر اک دھندلکا سا

خرد کی روشنی سینے میں مدھم ہوتی جاتی ہے

نمایاں ہو چلا ہے اک جہاں چشم تصور پر

نظر شاید حریف ساغر جم ہوتی جاتی ہے

گرہ یوں کھل رہی ہے ہر نفس ذوق تماشا کی

کہ ہر ادنیٰ سی شے اب ایک عالم ہوتی جاتی ہے

نہ جانے سینۂ احساس پر یہ ہات ہے کس کا

طبیعت بے نیاز شادی و غم ہوتی جاتی ہے

سمجھ میں آئیں کیا باریکیاں قانون قدرت کی

عبادت کثرت معنی سے مبہم ہوتی جاتی ہے

خجل تھا جس کی شورش سے تلاطم بحر ہستی کا

مِرے دل میں وہ ہلچل جوش اب کم ہوتی جاتی ہے


جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment