نمایاں منتہائے سعئ پیہم ہوتی جاتی ہے
طبیعت بے نیاز ہر دو عالم ہوتی جاتی ہے
اٹھی جاتی ہے دل سے ہیبت آلام روحانی
جراحت بہر قلب زار مرہم ہوتی جاتی ہے
جنوں کا چھا رہا ہے زندگی پر اک دھندلکا سا
خرد کی روشنی سینے میں مدھم ہوتی جاتی ہے
نمایاں ہو چلا ہے اک جہاں چشم تصور پر
نظر شاید حریف ساغر جم ہوتی جاتی ہے
گرہ یوں کھل رہی ہے ہر نفس ذوق تماشا کی
کہ ہر ادنیٰ سی شے اب ایک عالم ہوتی جاتی ہے
نہ جانے سینۂ احساس پر یہ ہات ہے کس کا
طبیعت بے نیاز شادی و غم ہوتی جاتی ہے
سمجھ میں آئیں کیا باریکیاں قانون قدرت کی
عبادت کثرت معنی سے مبہم ہوتی جاتی ہے
خجل تھا جس کی شورش سے تلاطم بحر ہستی کا
مِرے دل میں وہ ہلچل جوش اب کم ہوتی جاتی ہے
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment