کھل رہی ہے رفتہ رفتہ زلف شام یاد پھر
ڈوبتا ہے اس اندھیرے میں دل برباد پھر
اپنے اپنے انتخاب آرزو کی بات ہے
شاد ہوتا ہے کوئی دل اور کوئی ناشاد پھر
گہرے نیلے جنگلوں سے گھوم کر نکلے تو تھا
سامنے اک قریۂ بے خواب و بے آباد پھر
رَم بہت کرنے لگا ہے یہ غزالِ آرزو
پھیلتا جاتا ہے آنکھوں میں وہ دشتِ یاد پھر
اس قدر نالاں وہ گر الفت کی یکسانی سے ہے
کس لیے ہوتا نہیں اس قید سے آزاد پھر
سیم سی اک پھیلتی جاتی ہے دیواروں پہ کیوں
بھر گئی تعبیر سے کیا خواب کی بنیاد پھر
بات تک کرنے کو گر اس شہر میں کوئی نہیں
کون سنتا ہے دلِ بیمار کی فریاد پھر
نیند میں چلنے لگی بھیگی ہوئی ٹھنڈی ہَوا
خواب کے ہمراہ آئی اک پرانی یاد پھر
تن کو چھوتی ہیں کچھ ایسے فروری کی بارشیں
یہ خرابہ ہونے والا ہے ابھی آباد پھر
سامنے ہے پھر سے رنگا رنگ پھولوں کی بہار
دے رہی ہوں اپنے باغِ آرزو کو داد پھر
ڈوبتا ہے اس اندھیرے میں دل برباد پھر
اپنے اپنے انتخاب آرزو کی بات ہے
شاد ہوتا ہے کوئی دل اور کوئی ناشاد پھر
گہرے نیلے جنگلوں سے گھوم کر نکلے تو تھا
سامنے اک قریۂ بے خواب و بے آباد پھر
رَم بہت کرنے لگا ہے یہ غزالِ آرزو
پھیلتا جاتا ہے آنکھوں میں وہ دشتِ یاد پھر
اس قدر نالاں وہ گر الفت کی یکسانی سے ہے
کس لیے ہوتا نہیں اس قید سے آزاد پھر
سیم سی اک پھیلتی جاتی ہے دیواروں پہ کیوں
بھر گئی تعبیر سے کیا خواب کی بنیاد پھر
بات تک کرنے کو گر اس شہر میں کوئی نہیں
کون سنتا ہے دلِ بیمار کی فریاد پھر
نیند میں چلنے لگی بھیگی ہوئی ٹھنڈی ہَوا
خواب کے ہمراہ آئی اک پرانی یاد پھر
تن کو چھوتی ہیں کچھ ایسے فروری کی بارشیں
یہ خرابہ ہونے والا ہے ابھی آباد پھر
سامنے ہے پھر سے رنگا رنگ پھولوں کی بہار
دے رہی ہوں اپنے باغِ آرزو کو داد پھر
ثمینہ راجا
No comments:
Post a Comment