قدم قدم پہ نئے سے نئے حِصار میں تھا
دلِ امیر، محبت کے کاروبار میں تھا
نگاہ، لمحہ بہ لمحہ لرز لرز جاتی
عجیب رُعب تِرے حُسنِ بیقرار میں تھا
تمام عمر بِتا دی تیرے تعاقب میں
تِرا خیال بھی جُھلسا ہے، آتشِ غم سے
یہ راہرو بھی میرے ساتھ رہگزار میں تھا
مِری بساط ہی کیا تھی، مگر تمہارے لیے
کچھ اس سے زیادہ کیا جتنا اِختیار میں تھا
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment