Monday, 9 July 2012

قدم قدم پہ نئے سے نئے حصار میں تھا

قدم قدم پہ نئے سے نئے حِصار میں تھا
دلِ امیر، محبت کے کاروبار میں تھا
نگاہ، لمحہ بہ لمحہ لرز لرز جاتی
عجیب رُعب تِرے حُسنِ بیقرار میں تھا
تمام عمر بِتا دی تیرے تعاقب میں
پلٹ کے دیکھا تو اِک شہر انتظار میں تھا
تِرا خیال بھی جُھلسا ہے، آتشِ غم سے
یہ راہرو بھی میرے ساتھ رہگزار میں تھا
مِری بساط ہی کیا تھی، مگر تمہارے لیے
کچھ اس سے زیادہ کیا جتنا اِختیار میں تھا

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment