بچوں کی طرح دل سے لگا رکھے تھے ایسے
غم جیسے کھلونے ہوں، اُٹھا رکھے تھے ایسے
دیکھے سے جنہیں پھول کھلیں دشتِ وفا میں
دامن پہ کئی داغ سجا رکھے تھے ایسے
احساسِ ندامت سے بچا رکھا تھا سب کو
پھل پھول تھے جن پر نہ گھنی چھاؤں تھی جن کی
مالی نے بہت پیڑ اُگا رکھے تھے ایسے
تاریخ نے لکھا نہ جنہیں شرم کے مارے
کچھ ظلم زمانے نے روا رکھے تھے ایسے
گزرا نہ غمِ عشق غریبوں کی گلی سے
پہرے غمِ دوراں نے بٹھا رکھے تھے ایسے
سورج کی شعاعوں نہ ہواؤں کا گزر تھا
گھر شہر میں لوگوں نے بنا رکھے تھے ایسے
برگشتہ ہوا جن کی جبیں چُوم کے گزری
آنگن میں دِیئے ہم نے جلا رکھے تھے ایسے
مقبول نہ ہوتی تھی دُعا کوئی بھی عاجزؔ
مفہوم پسِ حرفِ دُعا رکھے تھے ایسے
مشتاق عاجز
انتخاب از الاپ
No comments:
Post a Comment