Wednesday, 11 July 2012

یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے

یہ جو ننگ تھے، یہ جو نام تھے، مجھے کھا گئے
یہ خیالِ پُختہ جو خام تھے، مجھے کھا گئے
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے، مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محوِ کلام تھے، مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جُڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے، مجھے کھا گئے
یہ عیاں جو آبِ حیات ہے، اِسے کیا کروں
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے، مجھے کھا گئے
وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے، مجھے کھا گئے
میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہِ دام تھے، مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خند سلام تھے، مجھے کھا گئے 

خورشید رضوی

No comments:

Post a Comment