میں کہ پُر شور سمندر تھے مرے پاؤں میں
اب کہ ڈُوبا ہوں تو سُوکھے ہوئے دریاؤں میں
نامرادی کا یہ عالم ہے کہ اب یاد نہیں
تُو بھی شامل تھا کبھی میری تمناؤں میں
دن کے ڈھلتے ہی اُجڑ جاتی ہیں آنکھیں ایسے
چاکِ دل سی کہ نہ سی زخم کی توہین نہ کر
ایسے قاتل تو نہ تھے میرے مسیحاؤں میں
ذکر اُس غیرتِ مریم کا جب آتا ہے فرازؔ
گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیساؤں میں
احمد فراز
No comments:
Post a Comment