سنو اے دوست! ہم اس شہر کو جلا نہ دیں
جو ہم کو کھا گیا ہے
جو میری اور تمہاری روح پر
آسیب بن کر چھا گیا ہے
یہاں دیواریں اُگتی ہیں
اسی باعث ہمارے گھر مکانوں میں بدلتے جا رہے ہیں
جو انساں ہیں
وہ خود اپنی ہی خواہش سے
کسی پرزے میں ڈھلتے جا رہے ہیں
فلیٹوں سے زمیں اور آسماں دونوں ہی منہا ہیں
فقط اک بالکونی ہی بچی ہے
جہاں سے دیکھ سکتے ہو
تمہارے دیکھنے کو آسماں کتنا بچا ہے
سعید ابراہیم
No comments:
Post a Comment