تم نے دیکھی ہی نہیں سوختہ جانی میری
یونہی بدنام ہے آشفتہ بیانی میری
نہ کوئی نقش ہے باقی نہ نشانی میری
اس نے پانی پہ لکھی ہو گی کہانی میری
شوقِ آغازِ سفر پر ہی اسے روکا تھا
لیکن اس دل نے کبھی ایک نہ مانی میری
وقت کی دھوپ میں گزرے ہوئے لمحوں کی تھکن
چھین کر لے گئی وہ شام سہانی میری
کنج در کنج بکھر جائے گی اس کی خوشبو
جب بھی گلشن میں بیاں ہو گی کہانی میری
ثریا حیا
No comments:
Post a Comment