کچھ بول گفتگو کا سلیقہ نہ بھول جائے
شیشے کے گھر میں تجھ کو بھی رہنا نہ بھول جائے
منزل کا نشہ قربت منزل نہ چھین لے
اپنی گلی میں آ کے ہی رستہ نہ بھول جائے
مت رکھ تضاد ظاہر و باطن کہ آدمی
تجھ کو تِرے عمل سے پرکھنا نہ بھول جائے
وہ بھیڑ ہے کہ شہر میں چلنا محال ہے
انگلی پکڑنا باپ کی بچہ نہ بھول جائے
ناہید! رفعتیں تو ملیں گی بہت، مگر
آنکھوں کو اپنے شہر کا نقشہ نہ بھول جائے
کشور ناہید
No comments:
Post a Comment