پھولوں کی جہاں باڑ تھی دیوار سے پہلے
ملنے میں سہولت تھی وہاں یار سے پہلے
چھوڑو بھی یہ لفظوں کے چناؤ کا تکلف
تمہید ضروری نہیں انکار سے پہلے
ممکِن ہی نہیں کوئی بدل جائے اچانک
آثار بتا دیتے ہیں اظہار سے پہلے
پتھر وہ اٹھائے جو گنہ گار نہیں ہو
میں خود ہی بکھر جاؤں گا یلغار سے پہلے
بازار کے ہر مول کو قیمت نہ سمجھنا
آتے ہیں تماشائی خریدار سے پہلے
یونہی نہیں کچھ لوگ یہاں پر ہیں وہاں کے
اک ناؤ چلا کرتی تھی اس پار سے پہلے
یہ عشق بھی طے کرتا ہے خود اپنے مدارج
رسماً تھی ملاقات لگاتار سے پہلے
دنیا سے حسن ہم بھی نبھائیں گے اب ایسے
ڈھونڈیں گے مفادات سروکار سے پہلے
احتشام حسن
No comments:
Post a Comment