Saturday, 19 November 2022

منظر سے بچھڑنے کا کرب

 منظر سے بچھڑنے کا کرب

ہم اپنے منظر سے بچھڑے

آنکھوں میں اس کا عکس لیے بھٹک رہے ہیں

کوئی نئی رت ہمیں پناہ دینے لگتی ہے

تو اچانک

بے دعا لمحوں کو کچھ نیا سوجھتا ہے

اور سارا منظر بدل جاتا ہے

جہاں پر اسرار آہٹیں

ہمیں خوف کے جنگل میں چھوڑ آتی ہیں

بے منظری روز ہم سے شکوہ کرتی ہے

صبح جاگتے ہیں

تو ہمارے چہروں پر شام ہونے لگتی ہے

اجنبیت کی دھند ہمارا سایہ چھین چکی ہے

ہماری اپنی ذات میں فاصلے اتنے گہرے ہو گئے

کہ ہم خود اپنی ہی دسترس سے باہر ہو چکے

ہم اس منظر میں نہیں دفنائے جا سکتے

جس میں ہم نے جنم لیا تھا

ہم ایک مدت سے

آنکھوں کی گٹھڑی میں اپنے خواب باندھے

وقت کی دہلیز پر کھڑے چیخ رہے ہیں

لیکن ہماری آواز کسی اور منظر میں رہ گئی ہے

بے صوت پکار پر آسمان اشک بار ہوتا ہے

تو ہماری فصلوں میں بھوک چپکے سے گھس جاتی ہے

دشت نے ہمارے شاداب جسموں سے پانی نچوڑ کر

ان میں پیاس بھر دی ہے

ادراک کی سرحدوں کے اس پار

اپنے گمشدہ منظر کو ہم نے کبھی نہیں کھوجا

ہمیں خبر ہے

ہم سب نے مل کر اپنا منظر خود گنوایا ہے

اور اب ہم

اپنے قحط زدہ بدن میں چھپ کر بیٹھ گئے ہیں


منیر احمد فردوس

No comments:

Post a Comment