غبار
بہت وسیع ہے دنیا مگر ہمارے لیے
کسی بھی گوشۂ زنجیر میں پناہ نہیں
سو اپنے آپ میں ہی قید کر لیا خود کو
ہمیں بھی اب کوئی آزادیوں کی چاہ نہیں
کوئی بھی چیز میسّر نہیں ہے دنیا میں
کوئی بھی چیز نہیں ہے مگر سکون تو ہو
کہ جس کو اوڑھ کر دو چار پل اگر ہم لوگ
کہیں پہ بیٹھ رہیں تو جنوں ٹھکانے لگے
ہماری آنکھ کے تارو! ہرے بھرے لوگو
تمہارے واسطے جلنا بُجھنا کھیل سہی
ہماری جان پر دیکھو مگر بنی ہوئی ہے
ہمیں ہواؤں کے مرکز میں رکھ رہے لوگو
یوں کھیل کھیل میں گر بُجھ بُجھا گئے ہم لوگ
کرو گے یاد اگر مر مرا گئے ہم لوگ
احمد اویس
No comments:
Post a Comment