Saturday, 19 November 2022

پھاڑوں نہ گریبان دما دم نہ کروں میں

 پھاڑوں نہ گریبان، دما دم نہ کروں میں

احساس کو اظہار سے باہم نہ کروں میں

میں روز اٹھاتا ہوں کسی خواب کی میت

اور آپ یہ کہتے ہیں کہ ماتم نہ کروں میں

سمجھاتا تو ہوں خود کو کہ مضبوط رکھوں دل

اور آنکھ کو تنہاٸی میں بھی نم نہ کروں میں

چلانے پہ کہتے ہو بغاوت ہے بغاوت

اور صبر پہ کہتے ہو کبھی کم نہ کروں میں

خاموش رہوں گر تو انہیں چین نہیں ہے

کچھ بولوں تو کہتے ہیں کہ برہم نہ کروں میں

اک شخص دکھا دو مجھے ہنستا ہوا دل سے

یعنی کہ یہ سب دیکھ کے بھی غم نہ کروں

صد حیف جو مظلوم کی آواز نہ بن پاؤں

صد حیف اگر شعر کو پرچم نہ کروں میں

کل کس کو دکھا پاوں گا منہ روزقیامت

نظریۂ حق اب جو مقدم نہ کروں میں

فرحت میں حسینؑ ابن علیؑ والا ہوں سن لو

مرجاؤں مگر مر کے بھی سر خم نہ کروں میں


فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment