Saturday, 19 November 2022

نہتے آدمی پہ بڑھ کے خنجر تان لیتی ہے

 نہتے آدمی پہ بڑھ کے خنجر تان لیتی ہے

محبت میں نہ پڑ جانا، محبت جان لیتی ہے

اسے خاموش دیکھوں تو سنائی کچھ نہیں دیتا 

دکھائی کچھ نہیں دیتا نظر جب کان لیتی ہے 

اداسی آشنا ہے اس قدر آہٹ سے میری اب

جہاں سے بھی گزرتا ہوں مجھے پہچان لیتی ہے

خوشی تو دے ہی دیتی ہے تِری دنیا مجھے لا کر

وہ ہر مچھلی جو مچھلی گھر کی پیداوار ہو صاحب 

وہ مچھلی گھر کو ہی اپنا سمندر مان لیتی ہے 

ہم اس کے ہاتھ پہ رکھ دیں زمین و آسماں لا کر 

مگر وہ ہم فقیروں کا کہاں احسان لیتی ہے

مگر بدلے میں اس کے وہ، میرا ایمان لیتی ہے

سر مقتل بکھر جاتے ہیں اس میں ڈوبنے والے

محبت ہر قدم پر خون کا تاوان لیتی ہے

اگر بجھنے سے بچنا ہے تو لو سے لو جلاؤ زیب

ہوا جلتے چراغوں سے یہی پیمان لیتی ہے


اورنگ زیب

No comments:

Post a Comment