سوداگری کے سارے حوالوں کو بیچ دوں
میں بھوک کو خریدوں نوالوں کو بیچ دوں
ڈر ہے کہ تیرگی کو بتا دیں گے میرا عیب
چن چن کے گھر کے سارے اجالوں کو بیچ دوں
ممکن ہے بیچ دوں کبھی اپنے سخن کو میں
ایسا بھی اب نہیں کہ خیالوں کو بیچ دوں
سوچا کسی بہانے صفائی ہو ذہن کی
ردی سے بے تکے سے سوالوں کو بیچ دوں
کیسے کسی کو خواب سجانے دوں میں تِرا
کیسے کسی کباڑ میں تالوں کو بیچ دوں؟
شازیہ نیازی
No comments:
Post a Comment