Friday, 18 November 2022

سوداگری کے سارے حوالوں کو بیچ دوں

 سوداگری کے سارے حوالوں کو بیچ دوں

میں بھوک کو خریدوں نوالوں کو بیچ دوں

ڈر ہے کہ تیرگی کو بتا دیں گے میرا عیب

چن چن کے گھر کے سارے اجالوں کو بیچ دوں

ممکن ہے بیچ دوں کبھی اپنے سخن کو میں

ایسا بھی اب نہیں کہ خیالوں کو بیچ دوں

سوچا کسی بہانے صفائی ہو ذہن کی

ردی سے بے تکے سے سوالوں کو بیچ دوں

کیسے کسی کو خواب سجانے دوں میں تِرا

کیسے کسی کباڑ میں تالوں کو بیچ دوں؟


شازیہ نیازی

No comments:

Post a Comment