یہی وقت تھا
ہاں یہی وقت تھا
بلکہ تاریخ بھی تو یہی تھی
جب اِک مہرباں ہاتھ نے
جانے کیا سوچ کر بس اچانک
مِری روح کو تھپتھپایا
مِرے دل کو تھاما
عجب ایک وارفتگی سے
اور کچھ پر فسوں آگہی سے
مِرے سن رسیدہ
دل و جاں کو اس نے
حیات آفریں لمس سے بھر دیا
اپنی نظروں میں خود معتبر کر دیا
سوچتا ہوں انوکھی تھیں وہ ساعتیں کس قدر
کیا عجب میری عقل و خِرد پر اثر تھا
زمانوں جہانوں سے میں بے خبر تھا
ستارے زمیں آسماں کہکشاں
سب مِرے پاؤں کی دھول تھے
ہوا بھی کہ جس سمت چلتی مرے حکم سے
اور خوشبو کہ پہلو بدلتی مِرے حکم سے
میں کہ مصروف تھا روز و شب بادلوں کے سفر میں
میں دل تھا نظر تھا ہوا تھا خدا تھا کسی کی نظر میں
کہ بے مثل یکتا یگانہ تھا میں اپنے ہر اک ہُنر میں
مِری تابناکی، مِرا نور کامل تھا شمس و قمر میں
مگر ایک دن پھر اچانک
عجب سانحہ ہو گیا
اور جیسے مِرا بخت ہی سو گیا
اختیار و تفاخر کا وہ سلسلہ کھو گیا
اب تو بس میں ہوں اور ماتم آرزو
زندگی کچھ نہیں ماسوا ہا و ہو
دم بہ دم دم بہ دم ہارتی جستجو
ایک آواز ایسے میں آتی ہوئی
دل کی ہمت دوبارہ بندھاتی ہوئی
کہہ رہی ہے مسلسل کہ یہ خواب ہے
خوف ہے وہم ہے سحر ہے
اس کو ہرگز حقیقت نہ جان
اور میں زندگی موت کے درمیاں
تا بہ حد کراں بے اماں بے اماں بے اماں
مبین مرزا
No comments:
Post a Comment