Saturday 19 November 2022

افسوس کس طرح یہ دہاں سے نکل گیا

 افسوس کس طرح یہ دہاں سے نکل گیا

حرفِ غلط جو میری زباں سے نکل گیا

وہ جس نے دل سے مان لیا عشق کو امیر

سمجھو حدودِ سُود و زیاں سے نکل گیا

یعنی، بیان ہوتی کہانی ہوئی ہے، ختم

یعنی کہ میں بھی حرفِ بیاں سے نکل گیا

پہلے وجودِ عشق میں دل منتقل کیا

پھر اس کے بعد میں بھی یہاں سے نکل گیا

آیا نہیں کبھی بھی جو وہم و گمان میں

حیرت ہے کس طرح وہ گماں سے نکل گیا

کون و مکان مجھ میں سمٹ کر تھے آ گئے

یا پھیل کر میں کون و مکاں سے نکل گیا

اس کو معانی دربدری کے بتائیں کیا

جو تیرے عشق، تیرے جہاں سے نکل گیا


تنویر سیٹھی

No comments:

Post a Comment