Saturday, 19 November 2022

فصیل شہر سے باہر بلا کے مارا گیا

 فصیلِ شہر سے باہر بلا کے مارا گیا

سبھی کے سامنے عبرت بنا کے مارا گیا

مِرے خلاف گواہی تھی میرے بھائی کی

اسی لیے تو عدالت میں لا کے مارا گیا

یہ حکم تھا کہ مجھےِ آگ پر ہی چلنا ہے

میں بے گناہ تھا پھِر بھی جلا کے مارا گیا

کسی کو حوصلہ ہی کب تھا بات سننے کا

مِری زبان پہ قدغن لگا کے مارا گیا

نظر ملاتے بھی کیسے وہ میرے یار جو تھے

تھے شرمسار، سو نظریں چُرا کے مارا گیا

نقاب ڈال کے لایا گیا میں مقتل میں 

پھر ایک ایک کو چہرہ دکھا کے مارا گیا 

مجھے نہ دیکھ سکا کوئی سچ کے رستے پہ

حسد کے دشت میں سُولی چڑھا کے مارا گیا

اگرچہ قتل کی سازش درونِ شہر ہوئی

میں احتیاط سے پردیس جا کے مارا گیا

مِرے حریف مِرے اپنے لوگ تھے دانش

یہ راز قتل سے پہلے بتا کے مارا گیا


دانش عزیز

No comments:

Post a Comment