Friday 18 November 2022

نظر فریب تھی منظر سے کچھ نہیں نکلا

 نظر فریب تھی منظر سے کچھ نہیں نکلا

جسے کریدا وہ اندر سے کچھ نہیں نکلا

کسی کے پاؤں کی ٹھوکر سے چشمہ نکلا تھا

ہمارے ماتھے کی ٹکّر سے کچھ نہیں نکلا

خدا کا نور بدن کے چراغ سے نکلا

حَرم سے گرجے سے مندر سے کچھ نہیں نکلا

بس اک بہشت ہے دوزخ ہے اور عدالت ہے

سوائے خوف کے محشر سے کچھ نہیں نکلا

تمہیں خبر نہیں ہو گی شکستگی کیا ہے

تمہاری ذات کے محور سے کچھ نہیں نکلا

ہم آپ چور تھے اور آپ ہی خزانہ تھے

سو ہم ہی نکلے ہیں چادر سے کچھ نہیں نکلا

شکستہ جسم کی بے تاب کروٹوں کے سوا

ہمارے بسترِ اطہر سے کچھ نہیں نکلا

ہماری روح کسی کے بدن میں تھی تحسین

اجل جب آئی تو پنجر سے کچھ نہیں نکلا


یونس تحسین

No comments:

Post a Comment