نظر فریب تھی منظر سے کچھ نہیں نکلا
جسے کریدا وہ اندر سے کچھ نہیں نکلا
کسی کے پاؤں کی ٹھوکر سے چشمہ نکلا تھا
ہمارے ماتھے کی ٹکّر سے کچھ نہیں نکلا
خدا کا نور بدن کے چراغ سے نکلا
حَرم سے گرجے سے مندر سے کچھ نہیں نکلا
بس اک بہشت ہے دوزخ ہے اور عدالت ہے
سوائے خوف کے محشر سے کچھ نہیں نکلا
تمہیں خبر نہیں ہو گی شکستگی کیا ہے
تمہاری ذات کے محور سے کچھ نہیں نکلا
ہم آپ چور تھے اور آپ ہی خزانہ تھے
سو ہم ہی نکلے ہیں چادر سے کچھ نہیں نکلا
شکستہ جسم کی بے تاب کروٹوں کے سوا
ہمارے بسترِ اطہر سے کچھ نہیں نکلا
ہماری روح کسی کے بدن میں تھی تحسین
اجل جب آئی تو پنجر سے کچھ نہیں نکلا
یونس تحسین
No comments:
Post a Comment