لوگوں نے آکاش سے اونچا جا کر تمغے پائے
ہم نے اپنا انتر کھوجا دیوانے کہلائے
کیسے سپنے کس کی آشا کب سے ہیں مہمان بنے
تنہائی کے سونے آنگن میں یادوں کے سائے
آنکھوں میں جو آج کسی کے بدلی بن کے جھوم اٹھی ہے
کیا اچھا ہو ایسی برسے سب جل تھل ہو جائے
دھول بنے یہ بات الگ ہے ورنہ اک دن ہوتے تھے
چندا کے ہم سنگھی ساتھی تاروں کے ہمسائے
آنے والے اک پل کو میں کیسے بتلا پاؤں گا
آشا کب سے دور کھڑی ہے باہوں کو پھیلائے
چاند اور سورج دونوں عاشق دھرتی کس کا مان رکھے
اک چاندی کے گہنے پھینکے اک سونا بکھرائے
کہنے کی تو بات نہیں ہے لیکن کہنی پڑتی ہے
دل کی نگری میں مت جانا جو جائے پچھتائے
ماجد ہم نے اس جگ سے بس دو ہی چیزیں مانگی ہیں
اوشا سا اک سندر چہرہ دو نیناں شرمائے
حسین ماجد
No comments:
Post a Comment