Friday, 18 November 2022

لوگوں نے آکاش سے اونچا جا کر تمغے پائے

 لوگوں نے آکاش سے اونچا جا کر تمغے پائے

ہم نے اپنا انتر کھوجا دیوانے کہلائے

کیسے سپنے کس کی آشا کب سے ہیں مہمان بنے

تنہائی کے سونے آنگن میں یادوں کے سائے

آنکھوں میں جو آج کسی کے بدلی بن کے جھوم اٹھی ہے

کیا اچھا ہو ایسی برسے سب جل تھل ہو جائے

دھول بنے یہ بات الگ ہے ورنہ اک دن ہوتے تھے

چندا کے ہم سنگھی ساتھی تاروں کے ہمسائے

آنے والے اک پل کو میں کیسے بتلا پاؤں گا

آشا کب سے دور کھڑی ہے باہوں کو پھیلائے

چاند اور سورج دونوں عاشق دھرتی کس کا مان رکھے

اک چاندی کے گہنے پھینکے اک سونا بکھرائے

کہنے کی تو بات نہیں ہے لیکن کہنی پڑتی ہے

دل کی نگری میں مت جانا جو جائے پچھتائے

ماجد ہم نے اس جگ سے بس دو ہی چیزیں مانگی ہیں

اوشا سا اک سندر چہرہ دو نیناں شرمائے


حسین ماجد

No comments:

Post a Comment