جیسے اس پار اور اس پار میں نہیں بنتی
آج کل مجھ میں میرے یار میں نہیں بنتی
میرے افکار کی حد ہے نہ کوئی سرحد ہے
آپ کے اور میرے افکار میں نہیں بنتی
لوگ تو ایک ہی قالب میں ڈھلے ہیں لیکن
دونوں ملکوں کی پہ سرکار میں نہیں بنتی
تم ریاضی کے اصولوں سے نہیں ہو واقف
عشق کی حد کسی پرکار میں نہیں بنتی
بات بنتی ہے مگر اور کسی صورت میں
آپ کی جیت مِری ہار میں نہیں بنتی
جو بھی لکھتا ہوں بلا خوف خطر لکھتا ہوں
اس لئے تو میری دربار میں نہیں بنتی
لوگ دو چار مریں بھی تو کچھ نہیں ہوتا
شہ سرخی کسی اخبار میں نہیں بنتی
مے کدے کا نیا دستور ذرا گنجلک ہے
رند میں، ساقی و مے خوار میں نہیں بنتی
لوگ سرحد پہ کھڑے نوحہ کناں ہیں اشرف
ہم کہ ہمسائے ہیں بے کار میں نہیں بنتی
اشرف علی
No comments:
Post a Comment