Friday, 18 November 2022

جیسے اس پار اور اس پار میں نہیں بنتی

 جیسے اس پار اور اس پار میں نہیں بنتی

آج کل مجھ میں میرے یار میں نہیں بنتی

میرے افکار کی حد ہے نہ کوئی سرحد ہے

آپ کے اور میرے افکار میں نہیں بنتی

لوگ تو ایک ہی قالب میں ڈھلے ہیں لیکن

دونوں ملکوں کی پہ سرکار میں نہیں بنتی

تم ریاضی کے اصولوں سے نہیں ہو واقف

عشق کی حد کسی پرکار میں نہیں بنتی

بات بنتی ہے مگر اور کسی صورت میں

آپ کی جیت مِری ہار میں نہیں بنتی

جو بھی لکھتا ہوں بلا خوف خطر لکھتا ہوں

اس لئے تو میری دربار میں نہیں بنتی

لوگ دو چار مریں بھی تو کچھ نہیں ہوتا

شہ سرخی کسی اخبار میں نہیں بنتی

مے کدے کا نیا دستور ذرا گنجلک ہے

رند میں، ساقی و مے خوار میں نہیں بنتی

لوگ سرحد پہ کھڑے نوحہ کناں ہیں اشرف

ہم کہ ہمسائے ہیں بے کار میں نہیں بنتی


اشرف علی

No comments:

Post a Comment