Sunday, 20 November 2022

میں نے دیکھا کہ موت ہے رقصاں

 میں نے دیکھا کہ موت ہے رقصاں

ہاسپٹل کے سفید بستر پر 

اپنی اکھڑی ہوئی سی سانسوں کے بیچ

آنسو بہتے تمہارے گالوں پر

سسکیوں اور ہچکیوں کے بیچ

اپنے ماتھے پر آخری بوسہ 

ثبت کرتے تمہارے ہونٹوں پر

اور وحشت کی تال پر رقصاں

میں نے دیکھا کہ وجد میں ہے جنوں

وقت کے در پہ سر جھکائے ہوئے

تھوڑی مہلت ادھار لینے کو

بھیک لیتے تمہارے ہاتھوں پر

جن کی لرزش میں بے بسی تھی عیاں

میں نے دیکھا کہ موت رقصاں ہے


میمونہ عباس خان

No comments:

Post a Comment