میں نے دیکھا کہ موت ہے رقصاں
ہاسپٹل کے سفید بستر پر
اپنی اکھڑی ہوئی سی سانسوں کے بیچ
آنسو بہتے تمہارے گالوں پر
سسکیوں اور ہچکیوں کے بیچ
اپنے ماتھے پر آخری بوسہ
ثبت کرتے تمہارے ہونٹوں پر
اور وحشت کی تال پر رقصاں
میں نے دیکھا کہ وجد میں ہے جنوں
وقت کے در پہ سر جھکائے ہوئے
تھوڑی مہلت ادھار لینے کو
بھیک لیتے تمہارے ہاتھوں پر
جن کی لرزش میں بے بسی تھی عیاں
میں نے دیکھا کہ موت رقصاں ہے
میمونہ عباس خان
No comments:
Post a Comment