کہانی یوں ادھوری چل رہی ہے
ہمارے بیچ دوری چل رہی ہے
ہمیں پیچھے دھکیلا جا رہا ہے
یہ کوشش بھی شعوری چل رہی ہے
نہیں سننا کسی نے شعر کوئی
یہاں پر جی حضوری چل رہی ہے
زمیں اور آسماں کے درمیاں تو
کوئی نسبت ضروری چل رہی ہے
مکمل ذکر اس کا ہو چکا ہے
غزل پھر بھی ادھوری چل رہی ہے
صائم جی
No comments:
Post a Comment