Saturday 12 November 2022

لفظوں کے تھکے لوگ ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے

 لفظوں کے تھکے لوگ


ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے 

درد دل میں چھپا کے رکھتے ہیں

آنکھ ویراں ہے اس طرح ان کی

جیسے کچھ بھی نہیں رہا اس میں 

نہ کوئی اشک نہ کوئی سپنا

نہ کوئی غیر نہ کوئی اپنا

پپڑیاں ہونٹ پر جمی ایسی 

جیسے صدیوں کی پیاس کا ڈیرہ

جیسے کہنے کو کچھ نہیں باقی

درد سہنے کو کچھ نہیں باقی

اجنبیت ہے ایسی نظروں میں 

کچھ بھی پہچانتے نہیں جیسے 

کون ہے جس سے پیار تھا ان کو

کون ہے جس سے کچھ عداوت تھی

کون ہے جس سے کچھ نہیں تھا مگر

ایک بے نام سی رفاقت تھی

سوکھی دھرتی کو ابر سے جیسے

ایسی انجان سی محبت تھی

رنگ بھرتے تھے سادہ کاغذ پر

اپنے خوابوں کو لفظ دیتے تھے 

اپنی دھڑکن کی بات لکھتے تھے

دل کی باتوں کو لفظ دیتے تھے

اس کے ہونٹوں سے خامشی چن کو 

اس کی آنکھوں کو لفظ دیتے تھے

چاندنی کی زباں سمجھتے تھے 

چاند راتوں کو لفظ دیتے تھے

ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے 

اپنے جذبوں سے تھک گئے جیسے 

اپنے خوابوں سے تھک گئے جیسے

دل کی باتوں سے تھک گئے جیسے 

اس کی آنکھوں سے تھک گئے جیسے 

چاند راتوں سے تھک گئے جیسے 

ایسے خاموشیوں میں رہتے ہیں 

اپنے لفظوں سے تھک گئے جیسے


علیم ارحم

No comments:

Post a Comment