لفظوں کے تھکے لوگ
ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے
درد دل میں چھپا کے رکھتے ہیں
آنکھ ویراں ہے اس طرح ان کی
جیسے کچھ بھی نہیں رہا اس میں
نہ کوئی اشک نہ کوئی سپنا
نہ کوئی غیر نہ کوئی اپنا
پپڑیاں ہونٹ پر جمی ایسی
جیسے صدیوں کی پیاس کا ڈیرہ
جیسے کہنے کو کچھ نہیں باقی
درد سہنے کو کچھ نہیں باقی
اجنبیت ہے ایسی نظروں میں
کچھ بھی پہچانتے نہیں جیسے
کون ہے جس سے پیار تھا ان کو
کون ہے جس سے کچھ عداوت تھی
کون ہے جس سے کچھ نہیں تھا مگر
ایک بے نام سی رفاقت تھی
سوکھی دھرتی کو ابر سے جیسے
ایسی انجان سی محبت تھی
رنگ بھرتے تھے سادہ کاغذ پر
اپنے خوابوں کو لفظ دیتے تھے
اپنی دھڑکن کی بات لکھتے تھے
دل کی باتوں کو لفظ دیتے تھے
اس کے ہونٹوں سے خامشی چن کو
اس کی آنکھوں کو لفظ دیتے تھے
چاندنی کی زباں سمجھتے تھے
چاند راتوں کو لفظ دیتے تھے
ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے
اپنے جذبوں سے تھک گئے جیسے
اپنے خوابوں سے تھک گئے جیسے
دل کی باتوں سے تھک گئے جیسے
اس کی آنکھوں سے تھک گئے جیسے
چاند راتوں سے تھک گئے جیسے
ایسے خاموشیوں میں رہتے ہیں
اپنے لفظوں سے تھک گئے جیسے
علیم ارحم
No comments:
Post a Comment