Saturday, 12 November 2022

موت سے انگلی چھڑا کر آئے ہیں

موت سے انگلی چھڑا کر آئے ہیں

زندگی کچھ دن تِرے ہمسائے ہیں

بے زبانی مِٹ گئی دیوار کی

ہم نئے نعرے بنا کر لائے ہیں

باغ میں جشنِ بہاراں ہے مگر

پھول تو بازار سے منگوائے ہیں

کوزۂ دل کب کا خالی ہو چکا

آنکھ میں آنسو کہاں سے آئے ہیں

خود بنائے ہیں یہ مٹی کے چراغ

کارخانوں سے نہیں بنوائے ہیں

سب کے چہروں میں تلاشا ہے تمہیں

بے وفا، ہرجائی تک کہلائے ہیں


‎محبوب کاشمیری

No comments:

Post a Comment