Thursday 17 November 2022

دعا کو ہاتھ اٹھائے ہوئے زمانہ ہوا

 دعا کو ہاتھ اٹھائے ہوئے زمانہ ہوا

خدا کو گھر میں بلائے ہوئے زمانہ ہوا

تمہاری یاد کا دیپک جلا کے راتوں میں

ہوا سے آنکھ ملائے ہوئے زمانے ہوا

تمہارے خواب مِرا آخری اثاثہ تھے

تمہارے خواب جلائے ہوئے زمانہ ہوا

جدائی کیا ہے اسے اس سے کچھ نہیں ہے غرض

مجھے بھی اشک بہائے ہوئے زمانہ ہوا

جو آگ ہم نے لگائی تھی اپنے اشکوں سے

وہ قہقہوں سے بجھائے ہوئے زمانہ ہوا

دلوں کو جوڑ کے اب کلفتیں مٹاتا ہوں

دلوں پہ ضرب لگائے ہوئے زمانہ ہوا

اس ایک لمس کا احساس آج تک نہ گیا

اگرچہ ہاتھ ملائے ہوئے زمانہ ہوا


ثمر علی

ثمر محمد علی

No comments:

Post a Comment