دعا کو ہاتھ اٹھائے ہوئے زمانہ ہوا
خدا کو گھر میں بلائے ہوئے زمانہ ہوا
تمہاری یاد کا دیپک جلا کے راتوں میں
ہوا سے آنکھ ملائے ہوئے زمانے ہوا
تمہارے خواب مِرا آخری اثاثہ تھے
تمہارے خواب جلائے ہوئے زمانہ ہوا
جدائی کیا ہے اسے اس سے کچھ نہیں ہے غرض
مجھے بھی اشک بہائے ہوئے زمانہ ہوا
جو آگ ہم نے لگائی تھی اپنے اشکوں سے
وہ قہقہوں سے بجھائے ہوئے زمانہ ہوا
دلوں کو جوڑ کے اب کلفتیں مٹاتا ہوں
دلوں پہ ضرب لگائے ہوئے زمانہ ہوا
اس ایک لمس کا احساس آج تک نہ گیا
اگرچہ ہاتھ ملائے ہوئے زمانہ ہوا
ثمر علی
ثمر محمد علی
No comments:
Post a Comment