Thursday 17 November 2022

ابھی داستان طویل ہے ابھی خواب دیکھے گا اور بھی

 ابھی داستان طویل ہے


ابھی داستان طویل ہے

ابھی خواب دیکھے گا اور بھی

ابھی مات کھائے گا بارہا

ابھی سر اٹھانا ہے پھر تجھے

ابھی سر کٹائے گا بارہا

ابھی لوگ آئیں گے زیست میں

تجھے دل لگانا ہے بارہا

ابھی رنج اٹھایا ہے ایک ہی

تجھے داغ آئیں گے اور بھی

ابھی تیر کھایا ہے غیر سے

تجھے چُھپ کے ماریں گے دوست بھی

رہِ مستقیم کو چھوڑ کر

کئی بار بھٹکے گا دشت میں

کئی بار دیکھے گا آسماں

ابھی اور ہو گا نراس تُو

جو سوال آئیں گے ذہن میں

تُو جواب ڈھونڈے گا عمر بھر

کہ جو فلسفے تھے دروغ ہیں

جو پڑھا تھا تُو نے وہ جھوٹ ہے

تجھے فنٹسی سے نکال کر

سرِ عام لائے گی زندگی

تجھے اپنی شکلِ قبیح کا

ابھی خو گرفتہ بنائے گی

تجھے ماں جو کہتی تھی شیر ہے

تُو سمجھتا تھا کہ دلیر ہے

تجھے خاک کر دے گی زندگی

تُو کہے گا کچھ نہیں آدمی

تُو ابھی کنارے سے آ لگا

تجھے غرق ہونا ہے بارہا

ابھی موج آئے گی تیز رو

تجھے پھر گھسیٹے گی درمیاں

یہ تو ایک باب تھا زیست کا

ابھی اور آئیں گے امتحاں

ابھی حوصلے کو بلند رکھ

کہ یہ داستان طویل ہے


سرمد سروش

No comments:

Post a Comment