ابھی داستان طویل ہے
ابھی داستان طویل ہے
ابھی خواب دیکھے گا اور بھی
ابھی مات کھائے گا بارہا
ابھی سر اٹھانا ہے پھر تجھے
ابھی سر کٹائے گا بارہا
ابھی لوگ آئیں گے زیست میں
تجھے دل لگانا ہے بارہا
ابھی رنج اٹھایا ہے ایک ہی
تجھے داغ آئیں گے اور بھی
ابھی تیر کھایا ہے غیر سے
تجھے چُھپ کے ماریں گے دوست بھی
رہِ مستقیم کو چھوڑ کر
کئی بار بھٹکے گا دشت میں
کئی بار دیکھے گا آسماں
ابھی اور ہو گا نراس تُو
جو سوال آئیں گے ذہن میں
تُو جواب ڈھونڈے گا عمر بھر
کہ جو فلسفے تھے دروغ ہیں
جو پڑھا تھا تُو نے وہ جھوٹ ہے
تجھے فنٹسی سے نکال کر
سرِ عام لائے گی زندگی
تجھے اپنی شکلِ قبیح کا
ابھی خو گرفتہ بنائے گی
تجھے ماں جو کہتی تھی شیر ہے
تُو سمجھتا تھا کہ دلیر ہے
تجھے خاک کر دے گی زندگی
تُو کہے گا کچھ نہیں آدمی
تُو ابھی کنارے سے آ لگا
تجھے غرق ہونا ہے بارہا
ابھی موج آئے گی تیز رو
تجھے پھر گھسیٹے گی درمیاں
یہ تو ایک باب تھا زیست کا
ابھی اور آئیں گے امتحاں
ابھی حوصلے کو بلند رکھ
کہ یہ داستان طویل ہے
سرمد سروش
No comments:
Post a Comment