چمن میں کیا ہوا کس نے یہ ہلچل سی مچائی ہے
کل چٹکی کہ دل ٹوٹا کوئی آواز آئی ہے
مسیحا! کیسی یہ تدبیر تُو نے آزمائی ہے
نمک سے میرے زخموں کی پرانی آشنائی ہے
زمانے کی سمجھ میں کب جنوں کی بات آئی ہے
ہنسی دیوانگی کی میری دنیا نے اڑائی ہے
اداؤں سے مِرے دل میں تمنا پھر جگائی ہے
مِرے حالِ پریشاں پر محبت مسکرائی ہے
تڑپ ہے ہجر ہے رُسوائی ہے اور پھر جدائی ہے
انہوں نے آج میرے دل کی یہ قیمت لگائی ہے
محبت کی حکومت ہے محبت کی خدائی ہے
محبت ہی حقیقت ہے محبت کی دہائی ہے
پریشاں پھول ہیں سب ہر کلی بھی تلملائی ہے
گلستاں میں یہ کس نے آگ نفرت کی لگائی ہے
یہ لگتا ہے نئی کوئی مصیبت پھر سے آئی ہے
حکومت نے غریبوں سے محبت کیوں جتائی ہے
ہماری بھی اور اس میں یار کی بھی جگ ہنسائی ہے
تبھی تو بے وفائی اس کی دنیا سے چھپائی ہے
سراج الدین گلاؤٹھوی
No comments:
Post a Comment