ابر چھایا تھا فضاؤں میں تِری باتوں کا
کتنا دلکش تھا وہ منظر بھری برساتوں کا
بجھتی شمعوں کے تعفن سے بچانے تجھ کو
میں نے آنچل میں سمیٹا ہے دھواں راتوں کا
کوئی شہنائی سے کہہ دو ذرا خاموش رہے
شور اچھا نہیں لگتا مجھے باراتوں کا
لاکھ دروازے ہوں چپ اور دریچے خاموش
چوڑیاں راز اُگلتی ہیں ملاقاتوں کا
دھوپ بھی تیز ہے شبنم کا بھروسا بھی نہیں
وقت بھی باقی نہیں اب تو مناجاتوں کا
رفیعہ شبنم عابدی
No comments:
Post a Comment