Monday 14 November 2022

بحر ہستی میں تلاطم کبھی ایسا تو نہ تھا

بحر ہستی میں تلاطم کبھی ایسا تو نہ تھا

خیر و شر کا یہ تصادم کبھی ایسا تو نہ تھا

کھوجتا رہتا تھا انسان وہ گم گشتہ بہشت

خود بناتا ہے جہنم کبھی ایسا تو نہ تھا

بھیجے ہر دور میں جس نے کہ پیمبر اپنے

وہ خدا ذہنوں سے گم ہے کبھی ایسا تو نہ تھا

ساز دل جو کبھی نغمات طرب گاتا تھا

اب ہے محروم ترنم کبھی ایسا تو نہ تھا

علم کے گوہر نایاب جو دیتا تھا کبھی

اب ہے خونْناب وہ قلزم کبھی ایسا تو نہ تھا

قتل انسان تو اب روز کا معمول ہوا

دل سے مفقود ترحم کبھی ایسا تو نہ تھا


سیدہ فرحت

No comments:

Post a Comment