کس نے دی آواز سپر کی اوٹ میں تھا
میرا سر تو اس کے سر کی اوٹ میں تھا
میں نے سات پرندے اڑتے دیکھے تھے
ایک پرندہ اور شجر کی اوٹ میں تھا
میدانوں شہروں میں لوگ سلامت ہیں
مرنے والا اپنے گھر کی اوٹ میں تھا
یوں جاگی ہے آگ سبھی دالانوں میں
جیسے کوئی ہاتھ شرر کی اوٹ میں تھا
کیوں آنکھیں امیدوں کی مہمان رہیں
شاید کوئی خواب سفر کی اوٹ میں تھا
آج کھلا دشمن کے پیچھے دشمن تھے
اور وہ لشکر اس لشکر کی اوٹ میں تھا
غلام حسین ساجد
No comments:
Post a Comment