بات اب تک ختم نہیں سمجھے
چوٹ کھا کر بھی ہم نہیں سمجھے
کچھ بھی کہنا فضول لگتا ہے
میری چاہت صنم نہیں سمجھے
بات ساری ہی ان سنی کر دی
کچھ تو ہو گا جو تم نہیں سمجھے
مسکراہٹ تو جانچ لیتے تھے
پر کبھی چشم نم نہیں سمجھے
دور کر کے جو مار ڈالا ہے
اس کو کیسے ستم نہیں سمجھے
وقت اچھا تھا ساتھ گزرا حق
ہاں مگر میرے غم نہیں سمجھے
اکرام الحق
No comments:
Post a Comment