چہرہ ہے مِرا دھول، کوئی غازہ نہِیں ہے
اس درد کا اس شخص کو اندازہ نہِیں ہے
اس بار حویلی میں انا کی ہوں مقید
کس طرز کا گنبد ہے کہ دروازہ نہِیں ہے
پکڑا تھا مِرے باپ کا کل اس نے گریباں
وہ شخص ابھی شہر میں لی ہاذا نہِیں ہے
بس ایک ہی تلخی پہ تعلق میں دراڑیں
اب ایسا بھی بے ربط یہ شیرازہ نہِیں ہے
کیا تم سے کہوں کیسی کٹی تم سے بِچھڑ کر
کچھ لطف نہیں زِیست میں، اب ماذہ نہِیں ہے
آسیب زدہ میرا مکاں، بال بکھیرے
ہے برہنہ عرصے سے مگر خازہ نہِیں ہے
سمجھا ہے سبب تم نے اسے رد بلا کا
لیکن یہ مِرے درد کا خمیازہ نہِیں ہے
کچھ بھی نہ رہا پاس گنوا بیٹھا تخیل
ہے دھند کوئی، بانہیں نہِیں، یازہ نہِیں ہے
تو دیکھ رشید آج گھٹن پِھر ہے مسلط
سناٹا سا ہے کوئی خبر تازہ نہِیں ہے
رشید حسرت
No comments:
Post a Comment