Wednesday 16 November 2022

زندگی نکھر آئی جھیل کر ستم تنہا

زندگی نکھر آئی جھیل کر ستم تنہا

تیرے در سے ہاتھ آیا بس یہی کرم تنہا

دھڑکنیں سناتی ہیں لا مکاں کے افسانے

کتنی داستانوں کو سن رہے ہیں ہم تنہا

منزلیں بلاتی ہیں، جستجو مچلتی ہے

تیرگی کا عالم ہے، اور ہر قدم تنہا

یہ بھی چھین لے آ کر گردش جہاں مجھ سے

چند آرزوئیں ہیں، اور میرا دم تنہا

کاش کوئی قسمت سے جا کے اتنا کہہ دیتا

حوصلے مرے رہبر تیرے پیچ و خم تنہا

روح کے اجالوں نے تیرگی کو للکارا

ظلمتوں کی راہوں میں گھر گئے ہیں ہم تنہا


عفت زیبا کاکوروی

No comments:

Post a Comment