جینے کی مزدوری کو بیگار کہوں یا کام کہوں
نقد مرگ عطا ہوتا ہے صلہ کہوں، انعام کہوں
خوف کو میں نے ہنر بنایا دیکھ ایسا چالاک ہوں میں
تیرا نام نہیں لیتا ہوں، برکھا رت کی شام کہوں
اپنا حال نہ جانے کیا ہے ویسے بات بنانے کو
دنیا پوچھے درد بتاؤں، تُو پوچھے آرام کہوں
آتی جاتی نیند کی لہریں صبح تلک ٹکراتی ہیں
کبھی کبھی میں نغمہ سمجھوں کبھی کبھی کہرام کہوں
شعلے کو شعلہ چاند کو چاند اور پھول کو بالکل پھول کہوں
میری آنکھیں میں تو ان کو چہرے پر الزام کہوں
اتنا سچا، ایسا جھوٹا اور ملے گا کون تجھے؟
تُو مٹی کا ایک بدن ہے میں تجھ کو گلفام کہوں
رئیس فروغ
No comments:
Post a Comment