Saturday 12 November 2022

کبھی الفاظ خنجر تو کبھی مرہم بھی ہوتے ہیں

 کبھی الفاظ خنجر تو، کبھی مرہم بھی ہوتے ہیں

خوشی لفظوں سے ملتی ہے کبھی یہ غم بھی ہوتے ہیں

جو پی کر زہر لہجوں کا ہمیشہ مسکراتے ہیں

ذرا گر غور سے دیکھو تو یہ پُرنم بھی ہوتے ہیں

ہوا کے دوش پر رکھے دیوں کی زندگی کیا ہے

کبھی گر تیز جلتے ہیں، کبھی مدھم بھی ہوتے ہیں

انہی کے نام پر انسانیت بھی مسکراتی ہے

جنہیں محسوس دنیا میں پرائے غم بھی ہوتے ہیں

محبت کے گلستاں میں بہاریں کم ہی آتی ہیں

وفا کی رہگزر میں ہجر کے موسم بھی ہوتے ہیں

بہاریں لوٹ آئیں گی خزاں کو راج کرنے دو

جو بڑھ جاتے ہیں حد سے غم تو گھٹ کر کم بھی ہوتے ہیں

شبِ فُرقت کی طولانی ہمیں مجروح کرتی ہے

تمہاری یاد میں گزرے، وہ پل مرہم بھی ہوتے ہیں


ناز ہاشمی

No comments:

Post a Comment