دھڑک گیا جو دل مِرا تو اس گھڑی لگا کہ بس
مِرے جنوں کا اک نظر میں وہ دیا صلہ کہ بس
میں پا بہ جولاں حد جسم و جان تک جب آ گیا
جنون خستہ پا کی پشت سے سنی صدا کہ بس
نہ. پوچھ جلوہ گاہ کی حکایتیں کرامتیں
نگاہ و دل کے درمیاں ہوا وہ معرکہ کہ بس
دراز گیسوؤں کے خم کا وصف مجھ سے پوچھتا
نمود ماہ ہو گیا چلی تھی اک ہوا کہ بس
وہ رات کیسی رات تھی کہ ماہ رو تھا در بغل
ہوا کی جنبش خفی بجھا گئی دیا کہ بس
مِرا حریف دشت میں سنا رہا تھا یہ مجھے
کسی سے اس نے تذکرہ مِرا اِدھر سنا کہ بس
سراج! اپنی وحشتیں سمیٹنے کا وقت ہے
یہ پردہ لطیفِ جاں ذرا سا ہٹ گیا کہ بس
عفیف سراج
No comments:
Post a Comment