مدعا گریہ سے کچھ عشق کا اظہار نہیں
کیا کہوں تم سے کہ کہنے میں دل زار نہیں
اس میں کیا ذلتِ یوسف سر بازار نہیں
سامنے تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں
ہو گیا آج سے بس علم قیافہ باطل
سادگی سے یہ کھلا تھا کہ ستمگار نہیں
سب طرح سے تو وہ اچھے ہیں پر اچھے کیا ہیں
اک یہی عیب ہے کیسا کہ وفادار نہیں
طلب بوسۂ رخسار کو جانے دیجے
کون سی بات ہے جس میں تمہیں انکار نہیں
یاں یہ منظور کہ مطلب کو زباں پر لائیں
واں ہے انگشت لبوں پر کہ خبردار نہیں
پوچھتے پوچھتے آ جاؤ میرے گھر کی طرف
ہے پتہ یہ کہ نشان در و دیوار نہیں
میرے رونے پہ وہ ہنس ہنس کے یہ کہنا تیرا
کہ تنک ظرف سے چھپتے کبھی اسرار نہیں
کوئی پس جائے کہ کٹ جائے بلا سے ان کی
کچھ خبر ان کو کسی کی دم رفتار نہیں
تار انفاس ہیں سینے کے نمایاں، ورنہ
دیکھنے کو بھی گریباں میں کوئی تار نہیں
سچ تو یہ ہے کہ ہے مشتاق عدو سے اچھا
ورنہ بندہ تو کسی کا بھی طرفدار نہیں
مشتاق دہلوی
منشی بہاری لال
No comments:
Post a Comment