جانے کس خواب کا سیال نشہ ہوں میں بھی
اجلے موسم کی طرح ایک فضا ہوں میں بھی
ہاں دھنک ٹوٹ کے بکھری تھی مِرے بستر پر
اے سکوں لمس تِرے ساتھ جیا ہوں میں بھی
راہ پامال تھی چھوڑ آیا ہوں ساتھی سوتے
کوری مٹی کا گنہ گار ہوا ہوں میں بھی
کتنا سرکش تھا ہواؤں نے سزا دی کیسی
کاٹھ کا مرغ ہوں اب باد نما ہوں میں بھی
کیسی بستی ہے مکیں جس کے ہیں بوڑھے بچے
کیا مقدر ہے کہاں آ کے رکا ہوں میں بھی
ایک بے چہرہ سی مخلوق ہے چاروں جانب
آئینو! دیکھو مجھے مسخ ہوا ہوں میں بھی
ہاتھ شمشیر پہ ہے ذہن پس و پیش میں ہے
راز کن یاروں کے مابین کھڑا ہوں میں بھی
راج نرائن راز
No comments:
Post a Comment